بچّو! کبھی تم نے ڈپٹی نذیراحمد کا نام بھی سنا ہے؟ یہ ایک بڑے پایہ کے عالم، قانون داں اور اردو کے پہلے ناول لکھنے والے تھے۔ خود ان کی زندگی کی کہانی بڑی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔
نذیر احمد ایک بہت غریب آدمی کے بیٹے تھے۔ انھیں لکھنے پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا، مگر ان کے باپ بیچارے کے پاس اتنا پیسہ کہاں تھا کہ بچّے کی پڑھائی کا انتظام کرتے۔ اس زمانے میں آج کل کی طرح جگہ جگہ ایسے اسکول تو تھے ہی نہیں کہ جہاں بغیر پیسے خرچ کیے غریبوں کے بچّے تعلیم حاصل کرسکیں۔
ان کے شوق کو دیکھ کر باپ نے انھیں ایک مولوی صاحب کے پاس چھوڑ دیا۔ اور مولوی صاحب تھے تو بڑے قابل، مگر بڑے سخت بھی تھے اور غریب بھی۔ ایک مسجد میں رہتے تھے۔ اور بہت سارے بچّوں کو اکٹھا کر کے پڑھایا کرتے تھے۔ وہ فیس کسی سے نہیں لیتے تھے۔ جو امیر بچّے ہوتے تھے ان کے گھروں سے مولوی صاحب اور ان کے ساتھ رہنے والے غریب بچّوں کے لیے کھانا آجایا کرتا تھا۔ اس طرح نذیر احمد وہاں رہنے لگے۔